EN हिंदी
سر راہ گزر ایک منظر | شیح شیری
sar-e-rahguzar ek manzar

نظم

سر راہ گزر ایک منظر

بلراج کومل

;

قفس کا در کھلا اک نیم جاں کم سن
پرندہ چند خستہ زائچوں پر رقص کے انداز میں آگے

بڑھا، پھر چونچ سے اپنا پسندیدہ
مصور زائچہ اس نے اٹھایا اور اپنے ہی

ہدایت کار کے آگے
ادب سے رکھ دیا جھک کر

ہدایت کار گرچہ نور سے تھا بدگماں محروم نا خواندہ
سر سیل رواں اک برگ بے مایہ

نوشت بخت کے اسرار سے واقف تھا وہ شاید
نظر کے رو بہ رو اس نے

متاع بے نہایت کے فسانے سے مجھے خوش حال کر ڈالا
مجھے پامال کر ڈالا

سبھی موج ضیا میں تھے
سبھی کے چشم و دل میں ایک شعلہ تھا

سبھی خاموش گم سم ہیں
یہاں سے کون جائے گا

یہاں پر کون آئے گا
پرندہ نیم جاں کم سن

قفس میں جا چکا کب کا
ہدایت کار کی آنکھوں میں لوٹ آئی ہے ویرانی

جو کل خالی تھا وہ دست طلب ہے آج بھی خالی
لبوں پر لطف اندام نہاں کی ان سنی گالی