EN हिंदी
سناٹا | شیح شیری
sannaTa

نظم

سناٹا

علی اصغر

;

کس کے قدموں کی آہٹ ہے
دروازے پر کون آیا ہے

آدھی رات کے سناٹے میں آہیں بھرنے
اس سے کہہ دو

یہ گھر صدیوں سے خالی ہے
الو چیخا

برگد بولا
سرد ہوا کا تنہا جھونکا

دیوار دل سے سر ٹکرا کر
لوٹ گیا ہے