EN हिंदी
سنگ بنیاد | شیح شیری
sang-e-buniyaad

نظم

سنگ بنیاد

دانیال طریر

;

ہوا نے سانس لیا تھا
ابھی کہانی میں

فلک کی آنکھ میں شعلے
ابھی دہکتے تھے

تھکن کی گوند نے چپکا رکھے تھے
جسم سے پر

شفق کے لوتھڑے بکھرے ہوئے تھے
پانی میں

نماز عصر ادا ہونی تھی
ہوئی کہ نہیں

پرند جھیل پر اترے
مگر وضو نہ کیا