سنگ آباد میں کیا میں نے دکاں کھولی ہے
لوگ حیرت زدہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
اک خریدار نے پوچھا کہ سبب کیا تو زباں کھولی ہے
یہ ہے قرنوں سے کھڑا سوچ کی آواز کا بت
کوئی وجدان کا موسم کوئی الہام کی رت
جب بھی آئے گی یہ دے گا کوئی نادیدہ سراغ
آپ ادھر آنکھ اٹھائیں تو دکھائی دے گا
شیشۂ لمحہ ہے یہ جس میں ہے صدیوں کی شراب
سانس کے گملوں میں یہ عمر دو روزہ کے گلاب
جھاڑ فانوس ہیں تخئیل کے روشن ہیں چراغ
آندھیاں آئیں تو یہ آنکھ ملا کرتے ہیں
روغن فکر کی حدت سے جلا کرتے ہیں
غور سے دیکھیے کیا کیا نہ سجھائی دے گا
در و دیوار پہ پیشانیاں زخم آلودہ
سجدے محرابوں میں آرامیدہ و آسودہ
کانچ کا طاق ہے یہ جس میں ہے ارماں کی قطار
یہ جو الفاظ کھلونوں کی طرح ہیں ان کی
چابیاں نت نئے مفہوم کی ملتی ہیں ہزار
یہ ہے احساس کا گلداں کہ ہیں کلیاں جس میں
جب یہ چٹکیں تو چھٹی حس کی ضرورت ہوگی
یہ وہ تصویر ہے آنکھوں کی زباں ہے جس کی
وہ پڑے گا جسے توفیق بصیرت ہوگی
نا فریدہ ہے یہ دنیا مگر اک خاکہ ہے
خیر و شر ہوں گے مگر صورت حالات جدا
نیک و بد کی نئی فرہنگ مرتب ہوگی
روز و شب ہوں گے یہی صبح الگ رات جدا
کیا کہا آپ نے وہ کون ہے! پتھر کی طرح
وہ کوئی جنس نہیں ہے کہ جو بیچی جائے
عکس زندہ ہے وہ میرا نہ کوئی چھو پائے
وہ اسی آس پہ جیتا ہے یہ سب بکھرائے
کوئی گاہک ادھر آئے گا پیمبر کی طرح
نظم
سنگ آباد کی ایک دکاں
شاذ تمکنت