اسے جس نے تمہیں بلا لیا ہے سمندروں کے مسافرو
اسے جا کے میرا سلام کہنا مسافرو
جو سفر کی ساری صعوبتوں سے گراں بہا
جب تمہارے اور مرے سفینے کا ناخدا
دو جہاں کے ہمہ ذی حیات یہ دن یہ رات بھی جس کے گرد رکے ہوئے ہیں
جہاں زمیں پہ جھکے ہوئے ہیں
کلاہ تیرتے بادلوں کے جو نور ہے ہمہ نور ہے
جہاں سر جھکا کے وہ جسم چلتے ہیں جن کو آگ کی حدتوں نے جنم دیا
جنہیں دیکھ سکتا نہیں کوئی
وہ جو بھید ہیں
وہاں وہ ملے گا تمہیں ضرور ہر اک سے ملتا ہے
دور دور سے آتے ہیں دیکھنے اسے دیکھنے
وہ ہر اک کو دیتا ہے زندگی
وہ اتار لیتا ہے بوجھ گزرے ہوئے دلوں کا
وہ آنے والی رتوں کے چہرے نکھار دیتا ہے
لوٹ آتے ہیں لوگ جو اسے دیکھ کر انہیں لوگ آتے ہیں دیکھنے
اسے جا کر میرا سلام کہنا مسافرو
تمہیں پانیوں کی روانیوں کا سکوں ملے
نظم
سمندروں کے مسافرو
مراتب اختر