EN हिंदी
سمندر پر بارش | شیح شیری
samundar par barish

نظم

سمندر پر بارش

بلراج کومل

;

یہاں پہ کل تک جو گاؤں تھا اس کے سب مکیں اب
اداس قصبوں غلیظ شہروں میں بس چکے ہیں

زمیں کے سینے سے جھاڑیوں خشک اور بیکار زرد پودوں
کی فصل اگتی ہے ہر برس سرخ آگ کا کارواں اترتا ہے

صبح دم دشت کے کناروں پہ پھیل جاتا ہے
گرد آفاق میں شب سرد کی حدوں تک

یہاں مگر ایک طائر پر شکستہ شاید مقیم ہے
داستاں یہ کہتی ہے بال و پر کی نمود ہوگی طلوع لمحۂ باد و باراں میں

دشت پر تبسم کا سیل سیل رحمت پڑے گا
یہ ساعت نیک جب فراز جود سے خاک پر اتر کر قریب آئے گی

طائر پر شکستہ پرواز کر کے کھو جائے گا زمانوں کی وسعتوں میں
مگر ابھی خاک زار میں سیل وقت کے درمیان آنکھیں

فسردہ و تشنہ کام آنکھیں ترس رہی ہیں
کہ بارشیں اب سمندر پر برس رہی ہیں