سمندر کی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
میں ڈبیا
میں کتنے معانی کی صبحیں
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے دربند
اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی!
(یہ صندوق کیوں کر گرا؟
نہ جانے کسی نے چرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟
پھسل کر گرا؟
سمندر کی تہ میں مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہا سال پہلے؟)
اور اب تک ہے صندوق کے گرد
لفظوں کی راتوں کا پہرا
وہ لفظوں کی راتیں
جو دیووں کی مانند
پانی کے لس دار دیووں کے مانند
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لا ریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب و روز
صندوق کے چار سو رینگتی ہیں
سمندر کی تہ میں!
بہت سوچتا ہوں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی امید میں
اپنے غواص جادو گروں کی
صدائیں سنیں گی؟
نظم
سمندر کی تہ میں
ن م راشد