EN हिंदी
سمندر کی کچھ بوندوں سے بات کی | شیح شیری
samundar ki kuchh bundon se baat ki

نظم

سمندر کی کچھ بوندوں سے بات کی

کمل اپادھیائے

;

سمندر کی کچھ بوندوں سے بات کی
وو بھی اپنے وجود کو لے کر ویاکل ہیں

وشال سمندر میں کہا کوئی ان کی ہے سنتا
جبکہ ان سے ہی سمندر ہے

ان کے بنا سمندر بس مروستھل ہے
بوندیں دن رات پریتن کرتی ہیں

ایک بوند دوسرے کو آگے ڈھکیل کر
سمندر کا وجود قائم رکھتی ہیں

ان کو احساس ہے اپنے ہونے کا
لیکن

سمندر ہر بار اس بات کو بھول جاتا ہے
سوچوں اگر بوندیں ودروہ کر دیں

بنا کر دوست سورج کو
اوپر آکاش میں بادل سے مل جائیں

ہو سکتا ہے دوستی دھرا سے کر لیں
اس کے گرت میں سما جائیں

سوکھ جائے گا سمندر
بوندوں کا وجود تو ہمیشہ بنا رہے گا

سمندر کو ابھیمان کس بات کا
کیا پتہ

کیا اسے نہیں پتا
کس نے کیا اس کا وجود قائم

مٹ جائے گا ایک دن
بس بوندوں کو قدم ودروہ کا اٹھانا ہے