سمندر کی خوشبو
کہیں دور سے آ رہی ہے،
سمندر کی بو سے ہیں بوجھل۔۔۔ نشیلی ہوائیں
ہوائیں
جو ساحل کی خستہ تمنا سے ٹکرا رہی ہیں
ہوائیں پرانے زمانے کے کچھ راز دہرا رہی ہیں
یہاں سے ذرا فاصلے پر نگر ہے
جہاں لوگ بستے ہیں
اپنی خموشی میں ڈوبی ہوئی زندگی کو۔۔۔ سہارا دیے
لوگ روتے ہیں۔۔۔ ہنستے ہیں
اپنے پرانے گھروں میں
ہوائیں
پرانے گھروں کی منڈیروں سے ٹکرا رہی ہیں
پرانے گھروں کی چھتوں میں۔۔۔ حدوں میں
پرانے پرندوں کی ہیں آشیانے
پرانے گھروں کے مکینوں کے
اپنے فسردہ فسانے،
کوئی اپنے دل کا فسانہ
پرندوں سے کہتا نہیں ہے
نشیلی ہواؤں کی دیوانگی کوئی سہتا نہیں ہے
سمندر کی شوریدہ خو گرم موجوں پہ بہتا نہیں ہے
سمندر
نگر کی بہت تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے
میرے تن کے تپیدہ جزیرے تلک آ گیا ہے
سمندر۔۔۔ میری آنکھ کے روزن یاد سے
روح کے دشت میں جھانکتا ہے
سمندر۔۔۔ مرے خون کے سرخ میں موجزن
نیند کے زرد میں نعرہ زن ہے
سمندر
میرے خواب کے سبز پر خندہ زن ہے
مرے جسم پر۔۔۔ اپنی خواہش کی بوسیدگی کی ردائیں
مرے جسم پر خندہ زن ہیں۔۔۔ یہ تازہ نشیلی ہوائیں
ازل کا سمندر۔۔۔ مری آنکھ سے بہہ رہا ہے
ابد کے سمندر کا جادو
مرے دل سے کچھ کہہ رہا ہے!

نظم
سمندر کی خوشبو
ثمینہ راجہ