EN हिंदी
سمتوں کا زوال | شیح شیری
samton ka zawal

نظم

سمتوں کا زوال

زبیر رضوی

;

جدھر تم ہو
اسی جانب مناظر آنکھ ملتے ہیں

تمہاری سمت ہے شہر نگاراں، چاند کی نگری
زمیں کی گود میں ہنستی ہوئی فصلوں کی شادابی

مچلتی ندیوں کا شور نیلی پر سکوں جھیلیں
پہاڑوں پر روپہلی دھوپ اور پیڑوں کی انگنائی

مکانوں کے حرم آبادیوں کے جاگتے منظر
تمہاری سمت ہے جسموں کی چاندی سانس کے میلے

دلوں کی دھڑکنیں آواز کی جلتی ہوئی شمعیں
مری جانب سلگتی ریت تپتی دھوپ کے صحرا

گھنے جنگل ہیں ویرانوں کی نا بینا رفاقت ہے
زمیں ہے جس کے آنگن میں صلیبیں ایستادہ ہیں

خموشی ہے لہو جو چاٹتی ہے اپنے زخموں کا
مری جانب شکستہ پتھروں سے کھیلتے منظر

سفر لمبا ہے یک رنگی سے ہم تم اوب جائیں گے
چلو کچھ دیر چشم شوق کے پہلو بدل ڈالیں