دل کے مندر میں خوشبو ہے لوبان کی، گھنٹیاں بج اٹھیں، دیو داسی تھی وہ
کتنے سرکش اندھیروں میں جلتی رہی دیکھنے میں تو مشعل ذرا سی تھی وہ
نور و نغمہ کی رم جھم پھواروں تلے مسکراتی ہوئی اک اداسی تھی وہ
پانیوں کی فراوانیوں میں رواں اس کی حیرانیاں کتنی پیاسی تھی وہ
حسن انساں سے فطرت کی سرگوشیاں گھل گئیں تیرے لہجے کی جھنکار میں
فن کی تکمیل سچا سراپا ترا، بے زبانی کو لایا جو اظہار میں
مدتوں تک نمائش کی خواہش رہی زندگی تب ڈھلی تیرے کردار میں
جو تھی زندہ محبت کی بنیاد پر وقت نے چن دیا اس کو دیوار میں
دھوپ ہر روپ میں، ریت ہر کھیت میں، فصل جذبات پر خشک سالی رہے
دو گھڑی دل کسی کے خیالوں میں گم اور پھر عمر بھر بے خیالی رہے
آئنہ اب ترستا رہے عکس کو اور نظر روشنی کی سوالی رہے
میرے حصے کا یہ آنکھ بھر آسماں جگمگاتے ستارے سے خالی رہے
نظم
سمیتا پاٹل
غلام محمد قاصر