EN हिंदी
سمے ہو گیا | شیح شیری
samay ho gaya

نظم

سمے ہو گیا

رفیق سندیلوی

;

پھر مقام رفاقت پہ مدغم ہوئیں
سوئیاں دونوں گھڑیال کی

رفت و آمد کے چکر میں
گھنٹے کی آواز میں

میرا دل کھو گیا
اپنی ٹک ٹک میں

بہتا رہا وقت
کتنا سمے ہو گیا!

سالہا سال
پانی کے چشمے سے

گیلے کیے لب عناصر نے
جلتے الاؤ پہ

ہاتھ اپنے تاپے مظاہر نے
سینے کی دھڑکن سے

نادید کے رنگ و روغن سے
اشیا نے

بینائی حاصل کی
مقسوم کے طاقچے سے

جہاں پھول رکھے تھے
لکڑی کے صندوقچے سے

خزانہ اٹھا لے گئی رات
مٹھی سے گرتے رہے

ریت کی مثل دن!
ایک دن

صحن کی پیل گوں دھوپ میں
آہنی چارپائی پہ لیٹے ہوئے

ایک جھپکی سی آئی
تو میں سو گیا

میرے چہرے پہ
بارش کی اک بوند نے

گر کے دستک دی:
بابا چلو،

اپنے کمرے کے اندر
سمے ہو گیا