EN हिंदी
سمندر کا سکوت | شیح شیری
samandar ka sukut

نظم

سمندر کا سکوت

چندر بھان خیال

;

آج پھر گھات میں بیٹھا ہے سمندر کا سکوت
ہم کو اک دوسرے سے دور ہی رہنا ہوگا

ہم کو ہر حال میں مجبور ہی رہنا ہوگا
مجھ کو اس دور جراحت سے گزر جانے دے

مجھ کو جینے کی تمنا نہیں مر جانے دے
میری تقدیر میں غم ہیں تو کوئی بات نہیں

مجھ کو ظلمت کی گپھاؤں میں اتر جانے دے
تو نہ گھبرا کہ ترے حسن کی مشعل لے کر

تیرے ہم راہ کبھی تیرے بچھونے کے قریب
رات بھر دھوم مچائے گا مرے جسم کا بھوت

آج پھر گھات میں بیٹھا ہے سمندر کا سکوت
ظرف باقی نہ کوئی عزم نہاں باقی ہے

صرف احساس کے چہرے پہ دھواں باقی ہے
کوئی سایہ ہے نہ ساتھی ہے نہ محفل کوئی

دل کشی ختم ہے پھر کیوں یہ جہاں باقی ہے
یہ جہاں جس میں سب اطراف تباہی کے نشاں

صورت و شکل پہ زخموں کی طرح پھیلے ہیں
اور ہر زخم ہے انسان کی وحشت کا ثبوت

آج پھر گھات میں بیٹھا ہے سمندر کا سکوت
تلخ تنہائی کا اک درد لیے چہرے پر

لے کے پھرتا ہوں میں زخموں کے دیے چہرے پر
روح مجروح جبیں زخم زدہ دل گھائل

پھر بھی ہنستا ہوں نئی آس لیے چہرے پر
زندگی ہے کہ کسی شاہ کی بیگم جس کو

وقت بازار میں لایا ہے برہنہ کر کے
اور خاموش ہیں تہذیب و تمدن کے سپوت

آج پھر گھات میں بیٹھا ہے سمندر کا سکوت
وقت کہتا ہے ہمیں دور ہی رہنا ہوگا

ہم کو ہر حال میں مجبور ہی رہنا ہوگا