صلیب گر پڑی
مہندس نے درمیان شہر بر نشیب
جو بنائی تھی
صلیب
گر پڑی
ہجوم منتظر تھا شام سے
کہ ایک سیاہ فام سے
جوان ناتمام سے خبر ملی
تمام رات کی تھکی ہوئی
بدن کے بوجھ سے جھکی ہوئی
نشیب سے اڑی ہوئی کھڑی تھی جو غریب
گر پڑی
ہجوم منتظر تھا شام سے
نشیب پر کسی طرح قدم جمائے اک ہجوم منتظر تھا شام سے
کہ پھر صلیب گر پڑی
صلیب گر پڑی
نظم
صلیب گر پڑی
محمد انور خالد