اگر وہ مرحلہ آئے
ہوا جب سانس لینا بھول جائے
مسافر چلتے چلتے رک پڑے سوچے
مجھے اب کون سی منزل کو جانا ہے
پرندہ آسماں پر
دائرہ در دائرہ اڑتا
سفیدی کے مہا گرداب کے اندر اتر جائے
مندی آنکھوں میں جب
خوابوں کا اک موج ساگر
ریت کی شکنوں میں ڈھل کر
ریت ہو جائے
اگر وہ مرحلہ آئے
تو تم اپنی نظر کی سیدھ میں تکتے چلے جانا
فقط تکتے چلے جانا
اسی مانجھے کی پیلی ڈور کی جانب
جو اپنی ابتدا اور انتہا کے
درمیاں
اک آخری امکان بن کر رہ گئی ہے
نظم
سکتہ
وزیر آغا