میں کیوں اک کمرے میں اک کرسی پر بیٹھا
اپنے اندر چلتے چلتے تھک جاتا ہوں
بچپن کی تصویریں یادیں
گھٹنے میں جو چوٹ لگی تھی
ہاتھ سے مٹی چھان کے بہتے خون کو کیسے روک لیا تھا
وہ مکتب، کالج، دفتر، گھر
اوبڑ کھابڑ رستے
گرتے پڑتے کیا بتلاؤں
کیسے اپنے گھر آیا ہوں
کن بازاروں سے گزرا ہوں
ہر چہرہ تھا پتھر کا
ہر دوکان تھی شیشے کی
ہر دیوار سے ٹکرایا ہوں
اب اپنے زخموں کو گنتا ہوں
اور وہ چوٹیں کہاں چھپی بیٹھی ہیں
جن کا لہو
اندر ہی اندر بہتا ہے
اک کرسی پر بیٹھا
دیوار و در کو تکتے
اک کاغذ پر صحرا صحرا لکھتے
میں اپنے ہی اندر
چلتے چلتے تھک جاتا ہوں۔۔۔!
نظم
صحرا صحرا
مصحف اقبال توصیفی