EN हिंदी
سہیلی | شیح شیری
saheli

نظم

سہیلی

معصوم شیرازی

;

ہوا کی سرمئی رتھ پر
مدھر، دھیمے سروں میں بولتی بارش

مرے وجدان کا پہلا جزیرہ ہے
وہ اکثر رات کے پچھلے پہر کوئی پرانا گیت گاتی ہے

مرے تن کی پیاسی ریت میں خوشبو ملاتی ہے
کبھی اپنی مہکتی نرم پوروں سے مرا شانہ ہلاتی ہے

مری نظموں کے مصرعوں میں ترنم چھوڑ جاتی ہے
وہ گونگے دیس کی ویران گلیوں میں

''سر بازار می رقصم'' کا الہامی وظیفہ گنگناتی ہے
بقائے یار کی خاطر فنا تسلیم کرتی ہے۔۔۔

فضا میں کونپلیں تقسیم کرتی ہے!
دلوں کے آستانوں پر دھمالیں ڈالتی۔۔۔

مری پہلی سہیلی ہے۔۔۔