سحر کے افق سے
دیر تک بارش سنگ ہوتی رہی
اور شیشے کے سارے مکاں ڈھیر ہو کے رہے
دست و بازو کٹے
پاؤں مجروح تھے
ذہن میں کرچیاں کھب گئیں
اب کے چہرے پہ آنکھیں نہیں
زخم تھے
کس طرح جاگتے
کس لئے جاگتے
دیر تک یونہی سوتے رہے
لوگ کیا جانے کیا سوچ کر
مطمئن ہو گئے
لوگ خاموش تھے
نظم
سحر کے افق سے
فاروق مضطر