EN हिंदी
سحر ہونے تک | شیح شیری
sahar hone tak

نظم

سحر ہونے تک

محمود ایاز

;

لرزتے سایوں سے مبہم نقوش ابھرتے ہیں
اک ان کہی سی کہانی، اک ان سنی سی بات

طویل رات کی خاموشیوں میں ڈھلتی ہے
فسردہ لمحے خلاؤں میں رنگ بھرتے ہیں

صدائیں ذہن کی پنہائیوں میں گونجتی ہیں
''خزاں کے سائے جھلکتے ہیں تیری آنکھوں میں

تری نگاہوں میں رفتہ بہاروں کا غم ہے''
حیات خواب گہوں میں پناہ ڈھونڈتی ہے

فسردہ لمحے خلاؤں میں رنگ بھرتے ہیں
یہ گردش مہ و سال آزما چکی ہے جنہیں

یہ گردش مہ و سال آزما رہی ہے ہمیں
مگر یہ سوچ کہ انجام کار کیا ہوگا

دوام تیرا مقدر ہے اور نہ میرا نصیب
دوام کس کو ملا ہے جو ہم کو مل جاتا؟

یہ چند لمحہ اگر جاوداں نہ ہو جاتے
میں سوچتا ہوں کہ اپنا نشان کیا ہوتا

کہاں پہ ٹوٹتا جبر حیات کا افسوں
کہاں پہنچ کے خیالوں کو آسرا ملتا؟

فسردہ لمحو، ابھی اور بیکراں ہو جاؤ
فسردہ لمحو، اور بیکراں ہو جاؤ