EN हिंदी
سفیر لیلیٰ-۴ | شیح شیری
safir-e-laila-4

نظم

سفیر لیلیٰ-۴

علی اکبر ناطق

;

حریم محمل میں آ گیا ہوں سلام لے لو
سلام لے لو کہ میں تمہارا امین قاصد خجل مسافر عزا کی وادی سے لوٹ آیا

میں لوٹ آیا مگر سراسیمہ اس طرح سے
کہ پچھلے قدموں پلٹ کے دیکھا نہ گزرے رستوں کے فاصلوں کو

جہاں پہ میرے نشان پا اب تھکے تھکے سے گرے پڑے تھے
حریم محمل میں وہ سفیر نوید پرور

جسے زمانے کے پست و بالا نے اتنے قصے پڑھا دئیے تھے
جو پہلے قرنوں کی تیرگی کو اجال دیتے

تمہیں خبر ہے
یہ میرا سینہ قدیم اہرام میں اکیلا وہ اک حرم تھا

عظیم رازوں کے کہنہ تابوت جس کی کڑیوں میں بس رہے تھے
انہیں ہواؤں کا ڈر نہیں تھا

نہ صحرا زادوں کے نسلی کا ہی ان کی گرد خبر کو پہنچے
حریم محمل میں وہ امانت کا پاسباں ہوں

جو چرم آہو کے نرم کاغذ پہ لکھے نامے کو لے کے نکلا
وہی کہ جس کے سوار ہونے کو تم نے بخشا جہاز صحرا

طویل راہوں میں خالی مشکوں کا بار لے کر ہزار صدیاں سفر میں گرداں
کہیں سرابوں کی بہتی چاندی کہیں چٹانوں کی سخت قاشیں

میان راہ سفر کھڑے تھے جکڑنے والے نظر کے لوبھی
مگر نہ بھٹکا بھٹکنے والا

جو دم لیا تو عزا میں جا کر
حریم محمل سنو فسانے جو سن سکو تو

میں چلتے چلتے سفر کے آخر پہ ایسی وادی میں جا کے ٹھہرا
اور اس پہ گزرے حریص لمحوں کے ان نشانوں کو دیکھ آیا

جہاں کے نقشے بگڑ گئے ہیں
جہاں کے طبقے الٹ گئے ہیں

وہاں کی فصلیں زقوم کی ہیں
ہوائیں کالی ہیں راکھ اڑ کر کھنڈر میں ایسے پھنکارتی ہے

کہ جیسے اژدر چہار جانب سے جبڑے کھولے غدر مچاتے
زمیں پہ کینہ نکالتے ہوں

کثیف زہروں کی تھیلیوں کو غضب سے باہر اچھالتے ہوں
مہیب سائے میں دیوتاؤں کا رقص جاری تھا

ٹوٹے ہاتھوں کی ہڈیوں سے وہ دہل باطل کو پیٹتے تھے
ضعیف کوؤں نے اہل قریہ کی قبریں کھودیں

تو ان کے ناخن نحیف پنجوں سے جھڑ کے ایسے بکھر رہے تھے
چکوندروں نے چبا کے پھینکے ہوں جیسے ہڈی کے خشک ریزے

حریم محمل وہی وہ منزل تھی جس کے سینے پہ میں تمہاری نظر سے پہنچا اٹھائے مہر و وفا کے نامے
وہیں پہ بیٹھا تھا سر بہ زانو تمہارا محرم

کھنڈر کے بوسیدہ پتھروں پر حزین و غمگیں
وہیں پہ بیٹھا تھا

قتل ناموں کے محضروں کو وہ پڑھ رہا تھا
جو پستیوں کے کوتاہ ہاتھوں نے اس کی قسمت میں لکھ دئیے تھے

حریم محمل میں اپنے ناقہ سے نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں خموش و ویراں
غبار صحرا مژہ پہ لرزاں تھا ریت دیدوں میں اڑ رہی تھی

مگر شرافت کی ایک لو تھی کہ اس کے چہرے پہ نرم ہالہ کیے ہوئے تھی
وہ میرے لہجے کو جانتا تھا

ہزار منزل کی دوریوں کے ستائے قاصد کے اکھڑے قدموں کی چاپ سنتے ہی اٹھ کھڑا تھا
دیار وحشت میں بس رہا تھا

پہ تیری سانسوں کے زیر و بم سے اٹھی حرارت سے آشنا تھا
وہ کہہ رہا تھا یہاں سے جاؤ کہ یاں خرابوں کے کارخانے ہیں

روز و شب کے جو سلسلے ہیں کھلے خساروں کی منڈیاں ہیں
وہ ڈر رہا تھا تمہارا قاصد کہیں خساروں میں بٹ نہ جائے

حریم محمل میں کیا بتاؤں وہیں پہ کھویا تھا میرا ناقہ
فقط خرابے کے چند لمحے ہی اس کے گودے کو کھا گئے تھے

اسی مقام طلسم گر میں وہ استخوانوں میں ڈھل گیا تھا
جہاں پہ بکھرا پڑا تھا پہلے تمہارے محرم کا اسپ تازی

اور اب وہ ناقہ کے استخواں بھی
تمہارے محرم کے اسپ تازی کے استخوانوں میں مل گئے ہیں

حریم محمل وہی وہ پتھر تھے جن پہ رکھے تھے میں نے مہر و وفا کے نامے
جہاں پہ زندہ رتوں میں باندھے تھے تم نے پیمان و عہد اپنے

مگر وہ پتھر کہ اب عجائب کی کار گہہ ہیں
تمہارے نامے کی اس عبارت کو کھا گئے ہیں

شفا کے ہاتھوں سے جس کو تم نے رقم کیا تھا
سو اب نہ ناقہ نہ کوئی نامہ نہ لے کے آیا جواب نامہ

میں نامراد و خجل مسافر
مگر تمہارا امین قاصد عزا کی وادی سے لوٹ آیا

اور اس نجیب و کریم محرم وفا کے پیکر کو دیکھ آیا
جو آنے والے دنوں کی گھڑیاں ابد کی سانسوں سے گن رہا ہے