نظر اٹھاؤ سفیر لیلیٰ برے تماشوں کا شہر دیکھو
یہ میرا قریہ یہ وحشتوں کا امین قریہ
تمہیں دکھاؤں
یہ صحن مسجد تھا یاں پہ آیت فروش بیٹھے دعائیں خلقت کو بیچتے تھے
یہاں عدالت تھی اور قاضی امان دیتے تھے رہزنوں کو
اور اس جگہ پر وہ خانقاہیں تھیں آب و آتش کی منڈیاں تھیں
جہاں پہ امرد پرست بیٹھے صفائے دل کی نمازیں پڑھ کر
خیال دنیا سے جاں ہٹاتے
سفیر لیلیٰ میں کیا بتاؤں کہ اب تو صدیاں گزر چکی ہیں
مگر سنو اے غریب سایہ کہ تم شریفوں کے راز داں ہو
یہی وہ دن تھے میں بھول جاؤں تو مجھ پہ لعنت
یہی وہ دن تھے سفیر لیلیٰ ہماری بستی میں چھ طرف سے فریب اترے
دروں سے آگے گھروں کے بیچوں پھر اس سے چولہوں کی ہانڈیوں میں
جوان و پیر و زنان قریہ خوشی سے رقصاں
تمام رقصاں
ہجوم طفلاں تھا یا تماشے تھے بوزنوں کے
کہ کوئی دیوار و در نہ چھوڑا
وہ ان پہ چڑھ کر شریف چہروں کی گردنوں کو پھلانگتے تھے
دراز قامت لحیم بونے
رضائے باہم سے کولھووں میں جتے ہوئے تھے
خراستے تھے وہ زرد غلہ تو اس کے پسنے سے خون بہتا تھا پتھروں سے
مگر نہ آنکھیں کہ دیکھ پائیں نہ ان کی ناکیں کہ سونگھتے وہ
فقط وہ بیلوں کی چکیاں تھیں سروں سے خالی
فریب کھاتے تھے خون پیتے تھے اور نیندیں تھیں بجوؤں کی
سفیر لیلیٰ یہ داستاں ہے اسی کھنڈر کی
اسی کھنڈر کے تماش بینوں فریب خوردوں کی داستاں ہے
مگر سنو اجنبی شناسا
کبھی نہ کہنا کہ میں نے قرنوں کے فاصلوں کو نہیں سمیٹا
فصیل قریہ کے سر پہ پھینکی گئی کمندیں نہیں اتاریں
تمہیں دکھاؤں تباہ بستی کے ایک جانب بلند ٹیلہ
بلند ٹیلے پہ بیٹھے بیٹھے ہونقوں سا
کبھی تو روتا تھا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر کبھی مسلسل میں اونگھتا تھا
میں اونگھتا تھا کہ سانس لے لوں
مگر وہ چولہوں پہ ہانڈیوں میں فریب پکتے
سیاہ سانپوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی تھی کہ میری آنکھوں پہ جم گئے تھے
سو یاں پہ بیٹھا میں آنے والے دھوئیں کی تلخی بتا رہا تھا
خبر کے آنسو بہا رہا تھا
مگر میں تنہا سفیر لیلیٰ
فقط خیالوں کی بادشاہی مری وراثت
تمام قریے کا ایک شاعر تمام قریے کا اک لعیں تھا
یہی سبب ہے سفیر لیلیٰ میں یاں سے نکلا تو کیسے گھٹنوں کے بل اٹھا تھا
نصیب ہجرت کو دیکھتا تھا
سفر کی سختی کو جانتا تھا
یہ سبز قریوں سے صدیوں پیچھے کی منزلوں کا سفر تھا مجھ کو
جو گرد صحرا میں لپٹے خاروں کی تیز نوکوں پہ جلد کرنا تھا اور
وہ ایسا سفر نہیں تھا جہاں پہ سائے کا رزق ہوتا
جہاں ہواؤں کا لمس ملتا
فرشتے آواز الااماں میں مرے لیے ہی
اجل کی رحمت کو مانگتے تھے
یہی وہ لمحے تھے جب شفق کے طویل ٹیلوں پہ چلتے چلتے
میں دل کے زخموں کو ساتھ لے کر
سفر کے پربت سے پار اترا
نظم
سفیرِ لیلیٰ-۲
علی اکبر ناطق