سفیر لیلیٰ یہی کھنڈر ہیں جہاں سے آغاز داستاں ہے
ذرا سا بیٹھو تو میں سناؤں
فصیل قریہ کے سرخ پتھر اور ان پہ اژدر نشان برجیں گواہ قریہ کی عظمتوں کی
چہار جانب نخیل طوبیٰ اور اس میں بہتے فراواں چشمے
بلند پیڑوں کے ٹھنڈے سائے تھے شاخ زیتوں اسی جگہ تھی
یہی ستوں تھے جو دیکھتے ہو پڑے ہیں مردہ گدھوں کے مانند
اٹھائے رکھتے تھے ان کے شانے عظیم قصروں کی سنگیں سقفیں
یہی وہ در ہیں سفیر لیلیٰ کہ جن کے تختے اڑا لیے ہیں دنوں کی آوارہ صرصروں نے
یہیں سے گزری تھیں سرخ اونٹوں کی وہ قطاریں
کہ ان کی پشتیں صنوبروں کے سفید پالان لے کے چلتیں
اٹھائے پھرتیں جوان پریوں کی محملوں کو
یہ صحن قریہ ہے ان جگہوں پر گھنی کجھوروں کی سبز شاخیں
فلک سے تازہ پھلوں کے خوشے چرا کے بھرتی تھیں پہلوؤں میں
سفید پانی کے سو کنویں یوں بھرے ہوئے تھے
کہ چوڑی مشکوں کو ہاتھ بھر کی ہی رسیاں تھیں
مضاف قریہ میں سبزہ گاہیں اور ان میں چرتی تھیں فربہ بھیڑیں
شمال قریہ میں نیل گائیں منار مسجد سے دیکھتے تھے
پرے ہزاروں کبوتروں کے فصیل قریہ سے گنبدوں تک
پروں کو زوروں سے پھڑپھڑاتے تھے اور صحنوں میں دوڑتے تھے
یہیں تھا سب کچھ سفیر لیلیٰ
اسی جگہ پر جہاں ببولوں کے خار پھرتے ہیں چوہیوں کی سواریوں پر
جہاں پرندوں کو ہول آتے ہیں راکھ اڑتی ہے ہڈیوں کی
یہی وہ وحشت سرا ہے جس میں دلوں کی آنکھیں لرز رہی ہیں
سفیر لیلیٰ تم آج آئے ہو تو بتاؤں
ترے مسافر یہاں سے نکلے افق کے پربت سے اس طرف کو
وہ ایسے نکلے کہ پھر نہ آئے
ہزار کہنہ دعائیں گرچہ بزرگ ہونٹوں سے اٹھ کے بام فلک پہ پہنچیں
مگر نہ آئے
اور اب یہاں پر نہ کوئی موسم نہ بادلوں کے شفیق سائے
نہ سورجوں کی سفید دھوپیں
فقط سزائیں ہیں اونگھ بھرتی کریہہ چہروں کی دیویاں ہیں
سفیر لیلیٰ
یہاں جو دن ہیں وہ دن نہیں ہیں
یہاں کی راتیں ہیں بے ستارہ
سحر میں کوئی نمی نہیں ہے
نظم
سفیر لیلی-۱
علی اکبر ناطق