سمندر کے کنارے چلتے چلتے
گیند آسمان کی طرف جا پہنچی ہے
بادلوں میں کھو گئی ہے
یا شاید کسی ستارے کے
نا ہموار فرش پر ٹھہر گئی ہے
گیند کے نہ ملنے پر خرگوش کی آنکھیں
سرخ موتیوں کی طرح نہیں چمکتیں
آنسوؤں سے بھری رہتی ہیں
وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے
سمندر کے پاس نہیں جاتا
آسمان کو بھی نہیں دیکھتا
جہاں گیند چلی گئی ہے
شاید کبھی اندھیرے میں گیند
واپس آئے تو اس کے دونوں طرف کئی
چمکدار بادل یا بہت سے ستارے بنے ہوں
یا پھر بنا ہوا تیز روشنی کا
ایک جال اور کچھ نظر نہ آ سکے
یا پھیلا ہوا وہ سمندر
جہاں اچھلتے اچھلتے گیند ہمیشہ
خرگوش کو کھود دیتی ہے اور کبھی
ستارہ نہیں بن پاتی
نظم
سفید خرگوش کی گیند
ذیشان ساحل