مرے مکاں کے سامنے
وہ جوں ہی آیا
یک بیک
کوئی برق زن زناتی آنکھ میں اتر گئی
لہو میں جیسے ان گنت
کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹوں نے سب
رگوں کے تار جھنجھنا دیے
تمام کھڑکیوں کے پٹ
''کھٹاک'' سے بدن نے بند کر لیے
مگر سفید گھوڑے پر سوار اجنبی کی آنکھ
میرے گرد و پیش
ایستادہ جسموں کی فصیل
توڑ کر
مرے سرہانے آ گئی
مری ہر ایک سانس جیسے
خنجروں کی نوک میں پرو گئی
نہ جانے کتنی مہربان صورتیں
نہ جانے کتنے بھولے بسرے واقعے
نہ جانے کتنی حسرتوں کے قافلے
شکستہ کانچ کی طرح
بکھر گئے
میں اک طرف تو ان کو جوڑنے
سمیٹنے کی رو میں مبتلائے کرب تھا
اور دوسری طرف
ہزاروں خنجروں سے اپنی سانس کی طناب کو
سنبھالنے کی حد میں
زخم زخم تھا
اس ایک لمحہ میں ہی ساری عمر کی
مسافتوں سے بھی طویل تر سفر ادا ہوا
مگر نہ اتنا حوصلہ ہوا
کہ اس سے ہم کلام ہو سکوں
سفید گھوڑے پر سوار اجنبی
در مکان پر کھڑا تھا چپ مگر
مجھے حصار جاں کے پاس بھی
کھڑا دکھائی دے رہا تھا اور میں
ایک چیخ روکنے کی جستجو میں
صد ہزار چیخ مجتمع کیے
آب تیغ جسم کھو چکا تھا
اور ایک صرف ایک سرخ بوند کا نشان تھا
سفید گھوڑے پر سوار اجنبی چلا گیا
نظم
سفید گھوڑے پر سوار اجنبی
سلطان سبحانی