EN हिंदी
سفر سے لوٹ آنے والی ہوا | شیح شیری
safar se lauT aane wali hawa

نظم

سفر سے لوٹ آنے والی ہوا

اصغر ندیم سید

;

ہوا ہمارے دالانوں میں رک سی گئی ہے
تم سے اجازت لے کر

میدانوں کی خوشبو پھیلا دے گی
مری کتابوں اور تمہاری پوشاکوں میں

اس سے پوچھو
کیسے ہیں وہ لوگ جنہیں پچھلی برسات میں

ہم نے بے گھر دیکھا تھا
اور کیسی ہے وہ بچی

جس نے ہم دونوں کو اپنے مٹی کے پیالے میں دودھ پلایا تھا
کیسے ہیں سورج مکھی کے ننھے منے بیٹے

جن کو ہم نے پیار کیا تھا
اور وہ سادہ لوح چرواہے

جن سے ہم نے اپنا رستہ پوچھا تھا
کیسے ہیں دریا کے گیت

جنہیں ادھورا چھوڑ آئے تھے
کس نے ہم دونوں کے بعد انہیں گایا ہے

کون ہمارے بعد وہاں سے گزرا
جہاں نومبر آ کر ٹھہر گیا تھا

اور نومبر دھوپ میں
جیسے سیاحوں کی وردی پہنے

ہر منظر میں پھیل رہا تھا
ہمیں بتاؤ

تم کیسی ہو
اور کیسے ہیں زندہ رہنے والے زمانے