EN हिंदी
سفر | شیح شیری
safar

نظم

سفر

راشد آذر

;

یہ مانا چند لمحوں کی رفاقت بھی
بہت ہے آج کل لیکن

مرے اندر کا سناٹا
کبھی دیکھو تو جانو گے

کہ میں کیوں
نیند کی خاموش تاریکی سے ڈرتا ہوں

کئی دن سے تو میں نے خواب بھی
ڈر ڈر کے دیکھے ہیں

جو سناٹے کا عادی ہو گیا ہو
اس کے کانوں کو

خزاں میں پیڑ سے ٹوٹے ہوئے
پتوں کے گرتے وقت ہلکی سی

تڑپنے کی صدا بھی اچھی لگتی ہے
یہ مانا میں اکیلا پن تو اپنا

بانٹ ہی لوں گا
مگر کوئی ادھوراپن مرا بانٹے

تو میں جانوں
سفر میں زندگی کے

میں نے دیکھا ہے
اگر ملتا بھی ہے کوئی

تو چپکے سے کسی اک موڑ پر
وہ چھوڑ جاتا ہے

ابھی تو خیر سے
منزل بڑھاپے کی نہیں آئی

ابھی تو اور بھی کچھ موڑ آئیں گے
بڑھاپے میں سہارے کی

ضرورت ہونے لگتی ہے
یہ ملنے اور بچھڑنے کی خلش ہی

اک سہارا ہے
جسے دل مان لیتا ہے

وہی ہے اعتبار آزرؔ
اگر یہ بھی نہیں ہوگا

تو پھر امید کیا ہو
اپنے جینے کی