EN हिंदी
سفر نامہ | شیح شیری
safar nama

نظم

سفر نامہ

فیض احمد فیض

;

1
پیکنگ

یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساتھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے

دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال

میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنان گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری

میرے مقدور میں ہے معجزۂ کن فیکوں
2

سنکیانگ
اب کوئی طبل بجے گا نہ کوئی شاہ سوار

صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہوگا!
اب کوئی جنگ نہ ہوگی نہ کبھی رات گئے

خون کی آگ کو اشکوں سے بجھانا ہوگا
کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں

وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا
سہم خونخوار درندے کی طرح آئے گا

اب کوئی جنگ نہ ہوگی مے و ساغر لاؤ
خوں لٹانا نہ کبھی اشک بہانا نہ ہوگا

ساقیا! رقص کوئی رقص صبا کی صورت
مطربا! کوئی غزل رنگ حنا کی صورت