زمانے کے کوہ گراں کی سرنگوں میں
جلتی ہوئی مشعلیں لے کے
شام و سحر ڈھونڈھتا ہوں
کہ کوئی کرن کوئی روزن کوئی موج باد تازہ
جو مل جائے میں ماورائے نظر کی جھلک پا سکوں
اس بھیانک اندھیرے میں گھٹتے ہوئے جی کو بہلا سکوں
میں جب پہلی بار ان سرنگوں میں داخل ہوا تھا
مجھے کیا خبر تھی یہاں سے مفر کی کوئی راہ ممکن نہیں
ہر دقیقہ مجھے اور الجھائے گا
سینۂ کوہ کی پیچ در پیچ راہوں میں
ہر پل کی پرچھائیں تاریکیوں میں اضافہ کرے گی
مجھے کیا خبر تھی کہ ہر آرزو مجھ کو مقصود سے دور تر کر سکے گی
مگر میرے دل میں یہ کیسی خلش ہے
کہ ہر پسپائی نو بہ نو
مجھ کو سعیٔ مسلسل پہ اکسا رہی ہے
سرنگوں کی وحشت نظر کے شراروں کو بھڑکا رہی ہے
مجھے جستجو آگے لے جا رہی ہے
نظم
سفر مدام سفر
عزیز تمنائی