EN हिंदी
سفر ہی آدرش کا سفر ہے | شیح شیری
safar hi aadarsh ka safar hai

نظم

سفر ہی آدرش کا سفر ہے

سرور کامران

;

آج بھی رات سونے سے پہلے
میرے بیٹے نے مجھ سے کہا میں اسے کوئی اچھی کہانی سناؤں

تو میں نے اسے ایک دل کش جزیرے میں اچھے گزرتے دنوں کی کہانی سنائی
جو مجھ سے مرے باپ نے یہ کہی اور اس نے وراثت میں اس داستان کو سنا

ہم نے بچپن میں سر سبز و شاداب نیلے جزیرے میں پریوں پھلوں اور پھولوں
چہکتی ہوئی بلبلوں کی کہانی سنی تھی

جزیرہ سمندر کی آزاد لہریں جہاں ناچتی ہیں
جہاں امن ہی امن ہے چین ہی چین ہے

ہر نیا دن بشارت کی بارات بن کر اترتا ہے
میرا بیٹا جو سویا ہوا ہے کہیں تتلیوں کے تعاقب میں بے چین ہے

ہم سبھی آنکھ موندے ہوئے تتلیوں کے تکہ کب بے بے چین ہیں
کہ شاید اندھیرے میں لپٹے ہوئے سبز باغوں کے قصے یہ نیلا جزیرہ

کتابوں میں دانش کی ہر لوح پر غیر مفہوم الفاظ ہیں
کئی منچلے منچلوں کے گروہ اس جزیرے کے لمبے سفر پر گئے اور پلٹ کر نہ آئے

میرا بیٹا جو سویا ہوا تتلیوں کے تکہ کب بے بے چین ہے
میں اسے بھی سفر پر گیا اور پلٹ کر نہ آتا ہوا دیکھتا ہوں

ہم نے صدیوں سے پاؤں کو ہاتھوں کو سینوں کو بے درد میخوں سے چھلنی کیا
اور لہو کی طرح سرخ لوہے سے اپنی زبانوں کو داغا

مگر وہ جزیرہ پہاڑوں کی جانب سفر تھا
کہ چلتے تو وہ دور ہی دور جاتا

ٹھہرتے تو جیسے وہ نزدیک آتا
یوں ہی نسل در نسل ہم نے اندھیرے میں لپٹے ہوئے ان جزیروں کی باتیں کہیں

اور ان جھوٹ کی جھالروں حاشیوں کو اٹھائے رکھا
نسل در نسل ہم قافلہ قافلہ بیل کندھے بدلتے حسیں جھوٹ کی یہ صلیبیں اٹھاتے رہے

میں کہ جامد ذہانت کا قائل نہیں
ہم نے اپنے سے پہلوں کے علم و فراست کی تشریح و تاویل میں اپنی رگ رگ سے

ساری ذہانت کو غارت کیا
ہم نے اپنے بزرگوں کی خفت مٹانے چھپانے کی خاطر لہو مومیائی کیا

کسی نے کہا وہ جزیرہ سمندر کے اس پار ہے
اور ہم نسل در نسل ڈوبی ہوئی کشتیاں بن گئے

کسی نے کہا وہ جزیرہ افق سے پرے آخری فاصلے کے دھوئیں میں چھپا ہے
اور ہم قہر صحرا میں بارات بردار ٹوٹا ہوا قافلہ بن گئے

مگر وہ جزیرہ عجب دلدلوں کا سفر ہے
کہ سو کوس جائیں تو جیسے فقط دو قدم ہی چلے ہیں

مگر وہ جزیرہ پہاڑوں کی جانب سفر ہے
کہ جائیں تو وہ دور ہی دور جائے

جو ٹھہریں تو جیسے وہ نزدیک آئے