میں نے ایک ساحل سے ایک سیپی اٹھائی
اور اپنے آنسو کو اس میں بند کر کے
دور گہرے سمندر میں پھینک دیا
میں نے اپنے ہاتھوں پر
اک تیز چھری سے
لمبے سفر کی لکیر بنائی
اور ایسے جوتے خریدے
جو چلتے ہوئے پیروں کو ہمیشہ زخمی رکھتے ہیں
اب کی دفعہ میں نے گھر بنایا ہے
ایسے شیشوں کا
جن میں صرف اندر کا عکس رہتا ہے
اور ایسی آگ کا
جو ضرورت پڑنے پر خود ہی جل اٹھتی ہے
اور ایسی ہوا کا
جس کے لئے کوئی دروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں
اور ایسی چیزوں کا
جو اپنی اپنی جگہ پر فرش سے جڑی ہوئی ہیں
میں نے اپنے موسموں کو چرا لیا ہے
اور گھاس کے میدانوں کو
ریگستانوں کو آسمانوں کو
میں نے ایک تتلی کو ایک کتاب میں چھپا لیا ہے
اور اک خواب کو آنکھوں میں
اور محبت کو جاننے کے لیے
میں نے
ایک نظم پڑھی ہے
اور آواز کے لیے
اک گیت گایا ہے
میں نے گھپ اندھیرے میں
آنکھیں بند کر کے
گھر کے شیشوں میں
خود کو دیکھا ہے
اور یاد کیا ہے
ایک آدمی کو
جو گہرے سمندر میں
وہ سیپی ڈھونڈنے اتر گیا
جس میں میں نے اپنا آنسو قید کر کے پھینکا تھا
نظم
سفر اور قید میں اب کی دفعہ کیا ہوا
تنویر انجم