EN हिंदी
سفر | شیح شیری
safar

نظم

سفر

اشوک لال

;

ناامیدی یہ بتاتی ہے کہ شب کی چادر
آخری چھور ہے کہ ختم ہوا میرا سفر

تیرگی جیت گئی ہار گیا نور نظر
دل کے کونے میں تبھی جلتی ہے اک شمع یقیں

رات منزل بھی نہیں میل کا پتھر بھی نہیں
ایک خاموش سی آواز میں کچھ گاتے ہیں

رات کے خواب جو جگنو کی طرح آتے ہیں
صبح کے ہونے میں بے نور سے ہو جاتے ہیں

دل کے کونے میں تبھی جلتی ہے اک شمع یقیں
رات منزل بھی نہیں میل کا پتھر بھی نہیں

چاہے چوراہے کی شوبھا ہوں کہ مندر میں مکیں
بت کہیں بھی سجیں پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں

نہ کوئی لغزش پا ان میں گماں ہے نہ یقیں
زندگی محو سفر محو سفر محو سفر

ہر نفس میل کا پتھر ہے سر راہ گزر