صفا مروہ
صفا و مروہ کے درمیاں دوڑتی امنگو
تمہیں خبر ہے
تمہارے اجداد کے نقوش برہنہ پائی
تمہارے قدموں کے نقش گر ہیں
تم اپنے قدموں کی پیروی میں رواں دواں ہو
خود اپنا عرفان ڈھونڈتے ہو
ہجوم میں چل کے اپنی بقاء کا سامان ڈھونڈتے ہو
دلوں کے اصنام ریزہ ریزہ
تم اپنے قدموں پہ چل رہے ہو
دلوں کے اندر چھپے بتوں کو مٹا رہے ہو
دلوں کے اندر چھپے درندوں کو سنگ صبر و غنا سے
کرتے ہو پاش پاش
اور چل رہے ہو
حصار شب میں رواں ہو کب سے
تم اپنا خود کارواں ہو کب سے
مگر شیاطیں تمہارے اندر جو بس رہے ہیں
وہ کب مٹیں گے
تمہارے نقش قدم کب اپنی انا کے بت
توڑ کر ہجوم مسافراں کے
رفیق ہوں گے
تم اپنے اجداد ہی کے نقش قدم پہ چلتے رہوگے
اور پھر یہ بھی جان لو گے
کہ یہ تمہارے ہی نقش پا ہے
تمہارے اعمال کی جزا ہیں
تمہاری تقدیر کا صلہ ہیں
تمہاری سعی کی انتہا ہیں
نظم
صفا مروہ
وحید قریشی