بستی کی بیمار گلی میں
شہنائی جب جب گونجی ہے
ماں نے اکثر مجھ سے کہا ہے
تم بھی اپنا بیاہ رچا لو
میں گھر کے کونے میں بیٹھا
شور سن رہا ہوں شہروں کا
گھائل ندیوں کی لہروں کا
پربت پر بیٹھا اک جوگی
اپنی آنکھیں بند کیے مجھ پر ہنستا ہے
اور وہ مستقبل کی عورت
کبھی سراسر زہر اگلتی
کبھی انوکھا زہر نگلتی
پیٹ رہی ہے چاٹ رہی ہے چھاتی میری
دریا جنگل پربت صحرا
شور ہے کتنا اندر باہر
پل پل جیسے کوڑے لگا رہی ہے خواہش
صدیوں کے پیاسے نیزے پیوست ہوئے پھر
سوکھی اور بے رنگ رگوں میں
خون کے اک قطرے کی خاطر
صدیوں کی راہیں طے کرنا
کوئی مشکل کام نہیں ہے
بحر کشاکش کے ساحل پر
راحت پتھر توڑ رہی ہے
موج تمنا چٹانوں سے اپنا ماتھا پھوڑ رہی ہے
میں گھر کے کونے میں بیٹھا
شور سن رہا ہوں ممتا کا
ہاں اب میں سوچ رہا ہوں
ایسا کوئی راس رچاؤں
اماں کی بوڑھی چھاتی پر
ایک نیا صدمہ بن جاؤں
نظم
صدمہ
چندر بھان خیال