EN हिंदी
سدھائے ہوئے پرندے | شیح شیری
sadhae hue parinde

نظم

سدھائے ہوئے پرندے

اختر حسین جعفری

;

سوال بچے نے جو کیے تھے
جواب ان کا دبی زباں سے وہی دیا ہے جو مجھ کو اجداد سے ملا تھا

وہی پرانے سوال اس کے
زمیں اگر خام ہے تو اس پر ہمارے پختہ مکان کیوں ہیں؟

اگر گلابوں کو رنگ خورشید سے ملا ہے
تو دھوپ کا حسن کون سے پھول کی عطا ہے؟

وہی پرانے سوال اس کے
وہی پرانا جواب میرا

وہی گرہ وارد چمن کی صدائے پرواز پر لگا دی ہے
جس کا حلقہ مری زباں پر پڑا ہوا ہے

مجھے یقیں ہے کہ یہ نیا ہم صفیر میرا
مری طرح سے زمیں کے شیشے کی شش جہت سے نہ آگے پرواز کر سکے گا

وہ ایک میٹھی صدا کی ندی
جو رات دن کی جلی زمینوں سے دور سر سبز جنگلوں میں رواں ہے نغمے

کوئی سدھایا ہوا پرندہ نہ اس کے سربستہ ساحلوں پر اتر سکے گا