جن گلیوں کا سورج
رستہ بھول گیا ہو
ان میں کسی بھی آہٹ کا
کوئی گیت نہیں گونجا کرتا
بوسیدہ دروازے
کھڑکیاں
بل کھاتے چوبی زینوں پر
ناچتی رہتی ہے ویرانی
گرد و غبار میں ڈوبے کمرے
آپس میں باتیں کرتے ہیں
بند دریچے
سانپوں جیسی آنکھوں سے
دور دراز کو جانے والی
سبز رتوں کی یادوں میں
روتے روتے سو جاتے ہیں
ان سب لوگوں کی یادوں میں
جن کی جسموں کی خوشبو کو
سینت کے رکھنے والے لمحے
ماہ و سال کی گرد میں دبتے جاتے ہیں
بند گھروں کی خوشبو سے
خاموشی اور تنہائی موت کی باتیں کرتے ہیں
نظم
سبز رتوں میں قدیم گھروں کی خوشبو
فہیم شناس کاظمی