EN हिंदी
صبر کی چادر تہہ کر دی | شیح شیری
sabr ki chadar tah kar di

نظم

صبر کی چادر تہہ کر دی

فہیم شناس کاظمی

;

کوئی آگ پئے کہ زہر پئے
یا سانپ ڈسے کی موت مرے

اب دھوپ کے جل تھل دریا سے
کوئی اپنے منہ میں ریت بھرے

ہم نے تو پیالہ الٹ دیا
اور الٹ دیا

ہر اک منظر
جب شام کی آنکھیں خون ہوئیں

اور بودلہ بوٹی بوٹی تھی
یہ بستی ظلم کی ظلمت میں

تب کچی دھوپ چباتی تھی
اور دریا پیتی جاتی تھی

مسواک زمین میں گاڑ دی ہے
اب رات سے رات نکالی ہے

اور آگ میں ڈالی مست دھمال
اور راکھ میں راکھ ملا دی ہے

اب خیر کی ختم ہوئی امید
اب پھانکو ریت

اور دھوپ پیو
یا سانپ ڈسے کی موت مرو

ہم نے تو پیالہ الٹ دیا
اور صبر کی چادر تہہ کر دی