جب شام کی پلکیں تھرائیں
یادوں کی آنکھیں بھر آئیں
ہر لہر میں ایک سمندر تھا
جو دل کو بہا لے جاتا تھا
ساحل سے دور جزیروں پر
دل بہتے بہتے ڈوب گیا
پھر رات ہوئی
پھر ہوا میں آنسو گھلنے لگے
پھر خوابوں کی محرابوں میں
میں گھر کا رستہ بھول گیا
پھر سانس سے پہلے موت آئی
اور کھیل تماشا ختم ہوا
میں بیچ گلی میں کیسے گر کر
ٹوٹ گیا
نظم
سب کھیل تماشا ختم ہوا
فہیم شناس کاظمی