EN हिंदी
سب کھیل تماشا ختم ہوا | شیح شیری
sab khel-tamasha KHatm hua

نظم

سب کھیل تماشا ختم ہوا

فہیم شناس کاظمی

;

جب شام کی پلکیں تھرائیں
یادوں کی آنکھیں بھر آئیں

ہر لہر میں ایک سمندر تھا
جو دل کو بہا لے جاتا تھا

ساحل سے دور جزیروں پر
دل بہتے بہتے ڈوب گیا

پھر رات ہوئی
پھر ہوا میں آنسو گھلنے لگے

پھر خوابوں کی محرابوں میں
میں گھر کا رستہ بھول گیا

پھر سانس سے پہلے موت آئی
اور کھیل تماشا ختم ہوا

میں بیچ گلی میں کیسے گر کر
ٹوٹ گیا