EN हिंदी
سایہ | شیح شیری
saya

نظم

سایہ

راشد آذر

;

دن بھر کے مصروف قدم
جب لوٹ کے گھر کو آتے ہیں

تو
اپنے ساتھ تھکے شانوں پر

شل ہاتھوں کا بار اٹھائے
بوجھل آنکھوں کی مدھم بینائی لے کر

آؤ آزر سننے کی اک ہلکی سی امید لیے
گھر کی دہلیز پہ رک جاتے ہیں

اور پرانا دروازہ
جب کھلتا ہے تو

سب مانوس دریچے بانہیں پھیلا کر
ان قدموں کی آہٹ پر

آنے والے اس پیکر کو
شام کی خاموشی میں اشارے کرتے ہیں

کمرے کی کرسی کے سکوں پرور ہیں دستے
بستر کی اجلی چادر ہے دوست نواز

تکیے کی نرمی میں ہمدردی کی گرمی
کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے

چاروں اور مرے کمرے میں
خوشبو سی ہے

جیسے تمہارا
اک سایہ سا

میرے ساتھ رہا کرتا ہے