EN हिंदी
سایۂ دیوار | شیح شیری
saya-e-diwar

نظم

سایۂ دیوار

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

کیسا سنسان ہے دشت آوارگی
ہر طرف دھوپ ہے ہر طرف تشنگی

کیسی بے جان ہے مے کدے کی فضا
جسم کی سنسنی روح کی خستگی

اس دوراہے پہ کھوئے گئے حوصلے
اس اندھیرے میں گم ہو گئی زندگی

اے غم آرزو میں بہت تھک گیا
مجھ کو دے دے وہی میری اپنی گلی

چھوٹا موٹا مگر خوبصورت سا گھر
گھر کے آنگن میں خوشبو سی پھیلی ہوئی

منہ دھلاتی سویرے کی پہلی کرن
سائباں پر امر بیل مہکی ہوئی

کھڑکیوں پر ہواؤں کی اٹکھیلیاں
روزن در سے چھنتی ہوئی روشنی

شام کو ہلکا ہلکا اٹھتا دھواں
پاس چولھے کے بیٹھی ہوئی لکشمی

اک انگیٹھی میں کوئلے دہکتے ہوئے
برتنوں کی سہانی مدھر راگنی

رس بھرے گیت معصوم سے قہقہے
رات کو چھت پہ چھٹکی ہوئی چاندنی

صبح کو اپنے اسکول جاتے ہوئے
میرے ننھے کے چہرے پہ اک تازگی

رشتے ناطے ملاقاتیں مہمانیاں
دعوتیں جشن تیوہار شادی غمی

جی میں ہے اپنی آزادیاں بیچ کر
آج لے لوں یہ پابندیوں کی خوشی