EN हिंदी
ساون | شیح شیری
sawan

نظم

ساون

نشور واحدی

;

کوئل کی سریلی تانوں پر تھم تھم کے پپیہا گاتا ہے
حل ہو کے ہوا کی لہروں میں ساون کا مہینہ آتا ہے

ٹھنڈی پروا کالا بادل برسا تو برستا جاتا ہے
بوندوں کی مسلسل چوٹوں سے پتا پتا تھراتا ہے

ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے

صحرا میں ہوا بل کھاتی ہے بادل کو صبا سنکاتی ہے
پانی سے زمیں نرماتی ہے سبزوں سے فضا لہراتی ہے

رم جھم رم جھم تھم تھم تھم تھم بوندوں کی صدا جب آتی ہے
ہر بوند سے دل کے تاروں پر اک چوٹ سی پڑتی جاتی ہے

ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے

بدلی کے دنوں میخوانوں میں صہبا کی روانی کیا کہنا
راتوں کی شراب و شاہد سے پلکوں کی گرانی کیا کہنا

ہر وقت سہانا کیا کہنا ہر رات سہانی کیا کہنا
برسات کے بھیگے لمحوں میں شاداب جوانی کیا کہنا

ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے

رنگیں گلشن رنگی صحرا رنگی دنیا رنگی باتیں
ناچے کھیلیں دوڑیں بھاگیں راتوں جاگیں نیندوں ماتیں

کیا قہر ہے ظالم برساتیں کیا قہر ہے ظالم برساتیں
بھیگی دنیا بھیگی سانسیں بھیگے ارماں بھیگی راتیں

ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے

ساون جو چڑھا پھر باغوں اور جھولوں کی باتیں ہوتی ہیں
گلشن کی رنگیں سیروں میں کچھ رنگیں دھاتیں ہوتی ہیں

جب عہد جوانی کی ٹھنڈی ٹھنڈی برساتیں ہوتی ہیں
متوالی عمریں ہوتی ہیں متوالی راتیں ہوتی ہیں

ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے
گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ہے