کھجوروں سے مہکی ہوئی شام تھی
شتر پر مال و اسباب تھا اور میں اک سرائے کے در پر کھڑا
رات کرنے کو اک بوریے کا طلب گار تھا
ٹمٹماتی ہوئی شمع کی لو میں ابن تمامہ کا سایہ
(جو ماحول گھیرے ہوئے تھا)
اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے وہ روشنی پھانکتا ہو
قوی الجسامت
حریص آنکھ سے لحظہ لحظہ ٹپکتی کمینی خوشی
بھاؤ تاؤ میں چوکس چوکس
عصا اور لٹکی ہوئی ریش
(دو اژدہوں کی طرح)
وو سرائے کی گندی فضا کو مہکتا ہوا خلد کہتا
مسافر درم اور دینار دے کر وہاں خواب کرتے
مجھے ام لیلیٰ کی فرمائش کھا گئی ہیں
زمانے کا شتر آن پہنچا ہے ایسے کنوؤں تک جہاں تیل ہے
میں مگر
آج بھی اس سرائے میں ابن تمامہ سے باتیں کیے جا رہا ہوں
ابھی ام لیلیٰ کی کچھ حسرتیں اور بھی ہیں

نظم
ساربان
تابش کمال