EN हिंदी
سانولی رنگت | شیح شیری
sanwli rangat

نظم

سانولی رنگت

نسیم سید

;

تم آخر اس قدر کیوں رو رہی ہو
بدشگونی مت کرو

یہ تو دعائیں مانگنے کا وقت ہے
شاید وہ

''ہاں'' کہہ دیں
چلو اٹھو

یہ اپنے سارے آنسو
ذات کی تکریم کی باتیں

یہ اپنا آگہی کا فلسفہ
سب ضبط کے سرپوش سے ڈھانکو

نظر نیچی رہے
بے چارگی کی شال

ماتھے تک گھسیٹو
اور

اپنے کانپتے ہاتھوں سے
اپنی ذات کا یہ خوان

ان کے سامنے چن دو
خدا رکھے بڑے تاجر ہیں

گہری ہے نظر ان کی
تمہاری سانولی رنگت

اور اس پر ہوش کی باتیں
مجھے تو ہول آتا ہے

کہیں وہ
''نا''

نہ کہہ دیں