میں ایک ہی سانس میں
بہت سی زندگیاں جی لیتا ہوں
کھلتی کلی سے گزرتا جھونکا
فتح مند کھلاڑی کا اڑتا پسینہ
وصل کی لذت سے مغلوب
عورت کی کراہ
سر شام دیا بجھاتے
نوجوان شاعر کی پھونک
بارش میں گرتی
کچی چھت کا بوجھل غبار
مرنے والے کے سینے سے نکلی
آخری آہ
میں ایک ہی سانس میں
بہت سی موتیں مر جاتا ہوں
نظم
سانس بھر ہوا
حسین عابد