EN हिंदी
سانپ کا سایہ خواب مرے ڈس جاتا ہے | شیح شیری
sanp ka saya Khwab mere Das jata hai

نظم

سانپ کا سایہ خواب مرے ڈس جاتا ہے

حنیف ترین

;

کتنی دفعہ تو
بڑھا، رکا میں اس کی جانب

صدیوں وہ مہکا کر میرا ظاہر و باطن
کئی یگوں تک، اس نے مجھ کو یاد کیا

اور کہا یہ، ندی ہوں میں
ناؤ بنو تم ڈولو مجھ پر

جھوم اٹھو تن کی چاندی سونا پا کر
لیکن میرے جسم کے ویرانے سے کوئی

ہر دم مجھ کو تاک رہا ہے
تن سے آگے

من نگری میں جھانک رہا ہے
نیند نشے کے

گیان دھیان میں سان رہا ہے
سر سے قدم تک تان رہا ہے