کتنی دفعہ تو
بڑھا، رکا میں اس کی جانب
صدیوں وہ مہکا کر میرا ظاہر و باطن
کئی یگوں تک، اس نے مجھ کو یاد کیا
اور کہا یہ، ندی ہوں میں
ناؤ بنو تم ڈولو مجھ پر
جھوم اٹھو تن کی چاندی سونا پا کر
لیکن میرے جسم کے ویرانے سے کوئی
ہر دم مجھ کو تاک رہا ہے
تن سے آگے
من نگری میں جھانک رہا ہے
نیند نشے کے
گیان دھیان میں سان رہا ہے
سر سے قدم تک تان رہا ہے

نظم
سانپ کا سایہ خواب مرے ڈس جاتا ہے
حنیف ترین