EN हिंदी
سال نو | شیح شیری
sal-e-nau

نظم

سال نو

انجم اعظمی

;

اب رات ڈھل رہی ہے کوئی دو کا وقت ہے
آنکھوں میں نیند جھول رہی ہے ابھی تلک

لیکن میں سال نو کے لئے جاگتا رہوں
امید کے چراغ جلاؤں نئے نئے

بیٹھا ہوں خامشی کی نواؤں کو چھیڑ کر
اپنے غموں سے آج بھی فرصت نہیں مجھے

پلکوں پہ آج بھی تو لرزتے ہیں یہ دیے
لیکن انہیں غموں سے نیا آستاں بنا

وجہ سکوں ہے آج خیال گریز پا
ٹوٹے ہوئے دلوں کو سہارا بھی دے سکا

جب دل کی دھڑکنوں سے ملے درس آگہی
پھر کس لئے جنوں میں کوئی انتشار ہو

نا کامیاں حیات کی شرما نہ جائیں گی
اس دیس کی فضاؤں سے گر ہم کو پیار ہو

ان مے کدوں سے کل بھی نہ تھا مجھ کو واسطہ
جن میں لہو کے جام اٹھاتے ہیں حکمراں

احساس کی نگاہ مگر دیکھتی ہے اب
کچھ اور تیز گام ہوا کاروان شوق

اور سال نو بھی ساتھ اسی کارواں کے ہے
ان جھونپڑوں میں آج چراغاں نہیں تو کیا

دو چار سال اور بھی امکاں نہیں تو کیا
فصل بہار آئے گی جھومیں گی ڈالیاں

پھولوں میں پات پات میں رنگت سمائے گی
ہوں گے کبھی تو جام بہ کف خاص و عام سب

ہر ہر نگاہ ساغر و مینا اٹھائے گی
زلف حیات شوق سے پرچم اڑائے گی

میں آج سال نو کے لئے جاگتا رہوں
امید کے چراغ جلاؤں نئے نئے