میں خزاں میں گرفتار ہوں
دیکھو خوابیدہ موجوں خریدار روحوں
امڈتے سمٹتے زمانوں سے
ارض و سما کی سیاہی کا دامن نچوڑا ہے
لیکن ہواؤں کے وہم و گماں میں نہیں
کون سی خاک سے
قطرۂ آب تابندہ موتی کی آغوش لیتا ہے
خواہش سے باہر نہ آؤں مری ابتدا انتہا
آج سمندر کی سلوٹ میں تابندگی ہے
سمندر کو پگھلا
بتا میرے سینے میں کس کس کی آواز ہے
کھیت میں باغباں مر چکا ہے
زمیں خونچکاں ہے
ستارے نہیں ہیں فقط سائباں ہے

نظم
سائبان
افتخار جالب