EN हिंदी
سائے | شیح شیری
sae

نظم

سائے

محمد دین تاثیر

;

ایسی راتیں بھی کئی گزری ہیں
جب تری یاد نہیں آتی ہے

درد سینے میں مچلتا ہے مگر
لب پہ فریاد نہیں آتی ہے

ہر گنا سامنے آ جاتا ہے
جیسے تاریک چٹانوں کی قطار

نہ کوئی حیلۂ تیشہ کاری
نہ مداوائے فرار

ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر
جب تری راہ گزر میں سائے

ہر جگہ چار طرف تھے چھائے
تو نہ تھی تیری طرح کے سائے

سائے ہی سائے تھے لرزاں لرزاں
کبھی آئے کبھی بھاگے کبھی بھاگے کبھی آئے

سائے ہی سائے تھے تری راہ گزر کے سائے
ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر

جب تری یاد نہیں آتی ہے
لب پہ فریاد نہیں آتی ہے