EN हिंदी
صابن | شیح شیری
sabun

نظم

صابن

ریاض لطیف

;

دو عالم کی سیاحی میں
گزرے ہیں نکہت نکہت

میرے لب
اجلے پستانوں سے

زیر ناف
گھنی راتوں کے ایوانوں سے

بھیگی بھیگی کھال کی اندھی رونق سے واقف ہوں میں بھی
جسموں سے سیلابی پیچ و خم سے گھس کر

لمحہ لمحہ جان گنوائی ہے میں نے بھی
جھاگ بنا کر ہستی اپنی

مٹی کے سپنے دھوتا ہوں
تیرے خلیوں کے حلقوں میں

ایک شفاف فلک بوتا ہوں
تند مساموں کی آنکھوں میں

اپنے چہرے کو کھوتا ہوں