رات تک جسم کو عریاں رکھنا
چاند نکلا تو یہ صحرا کی سلگتی ہوئی ریت
سرد ہو جائے گی برسات کی شاموں کی طرح
برف ہو جائے گا جسم
پھر خنک تاب ہوا آئے گی
تیری پیشانی کو چھو جائے گی
اور پسینے کی یہ ننھی بوندیں
ہو کے تحلیل فضاؤں میں بکھر جائیں گی
ریت کے ٹیلوں سے ٹکرائیں گی
ریت کے ٹیلے ہواؤں کی نمی چاٹیں گے
ریت کے ٹیلوں کی تشنہ دہنی
اور بھڑک اٹھے گی
جب ہوا دشت سے آگے نکلی
پتے پتے کو جھلس جائے گی
پر جہاں تو ہے وہاں
سرد ہو جائے گا ذرہ ذرہ
برف ہو جائے گا جسم
مگر اک روح کی آگ
جس کو برسات کی شاموں نے ہوا دی برسوں
چاند کی زرد شعاعوں سے بھڑک اٹھے گی
نظم
روح کی آگ
شہزاد احمد