EN हिंदी
روح تغزل | شیح شیری
ruh-e-taghazzul

نظم

روح تغزل

لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی

;

میں اپنے قلب میں جب نور عرفاں دیکھ لیتا ہوں
تو ہر ذرہ میں اک خورشید تاباں دیکھ لیتا ہوں

مٹا کر اپنی ہستی راہ حق میں کھل گئیں آنکھیں
کہ مر کر زندگی کا راز پنہاں دیکھ لیتا ہوں

حقیقی عشق کا جذبہ ہے دل میں جس کی برکت سے
حیات اور موت کے اسرار عریاں دیکھ لیتا ہوں

کئے ہیں عشق اور الفت کے سارے مرحلے جب طے
تو دنیا بھر کی ہر مشکل کو آساں دیکھ لیتا ہوں

چھپا سکتا نہیں تو خود کو مجھ سے لاکھ پردوں میں
تری صورت ہر اک شے میں نمایاں دیکھ لیتا ہوں

کہانی کیا سناؤں دل جلوں کی غم کے ماروں کی
کہ اٹھتا چار سو اک غم کا طوفاں دیکھ لیتا ہوں

تڑپ ہے درد ہے رنج و الم ہے بے قراری ہے
یہ ملک اور قوم کا حال پریشاں دیکھ لیتا ہوں

اسی پیارے وطن ہندوستاں کی غیر حالت ہے
کہ جس پر غیر کو بھی آج نازاں دیکھ لیتا ہوں

نکلتی ہے اگر اک آہ بھی مظلوم کے دل سے
زمیں سے عرش تک ہر شے کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں

گھٹائیں غم کی سر پر چھا گئیں جو ہند والوں کے
در و دیوار کو بھارت کے گریاں دیکھ لیتا ہوں

ابھی ہندوستاں کے دن بھلے آئے نہیں شاید
کہ میں لڑتے ہوئے ہندو مسلماں دیکھ لیتا ہوں

نہ کیوں اے آفتابؔ آئے نظر امید کی صورت
کہ جب تکلیف میں راحت کے ساماں دیکھ لیتا ہوں